رب کائنات
Rab E Kainat
POet Altaf Husa
Rab e Kainat Tashreeh in urdu
9th class Urdu Rab E Kainat Tashreeh in Urdu Composed BY Bilal Aftab for federal Board (FBISE) Islamabad and PUnjab. Download PDF guide/ Books/ Past Paper there are the lattest notes precribed by Federal Board of Intermediate and Seconday Education(FBISE) islamabad and all Board of Punjab Province
What Included in these notes
In this post you will get completely solved Tashreeh of Rab e kainat in urdu with Summary. you can find all the Notes of 9th class in our website.
شاعر کا نام :خواجہ الطاف حسین حالی
شعر نمبر1:
کامل ہے جو ازل سے،وہ ہے کمال تیرا
باقی ہے جو ابد تک ،وہ ہے جلال تیرا
مفہوم:اللہ
تعالی کا ازل سے کمال موجود ہے اور ابد تک اس کا جلال باقی رہے گا۔
تشریح:شاعر
نے اس شعر میں اللہ تعالی کی دو صفات ازل اور ابد کو بیان کیا ہے،کہ اللہ جل شانہ
ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔اس سارے عالم کا وجود نہیں تھا،ہمارا رب تھا اور اس
سارے عالم کا وجود نہیں ہو گا مگر ہماارا رب ہو گا۔اللہ تعالی کی ذات اس وقت سے ہے
جب یہ کائنات اور اس کے حدود خلق نہیں ہوئے تھے۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہےکہ''اگر
سارے سمندر اللہ تعالی کی تعریف لکھنے کے لیے سیاہی اور درخت قلمیں بن جائیں تو یہ
سمندر اور درخت کی قلمیں ختم ہو جائیں مگر اللہ تعالی کی تعریف اور اس کے کلمات کا
احاطہ ممکن نہیں ۔داغ دہلوی کہتے ہیں
یہاں بھی تو،وہاں بھی تو،زمیں تیری،فلک تیرا
کہیں ہم نے پتہ پایا نہ ہر گز آج تک تیرا
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ساری کائنات کو فناہے
صرف اللہ تعالی کی ذات کو بقاء ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں۔"کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام"کائنات کی ہر چیز کو فنا ہے باقی رہنے والی رب کی ذات
ہے۔
کیونکہ ایک وقت تھاجب خدا کے علاوہ کچھ نہیں تھااور ایک وقت
آئے گا جب ہر شے مٹ جائے گے۔جب ایک صدا بلند ہوگی کہ اب کس کی حکومت ہے تو جواب
آئے گا کہ خدا واحد وقہار کی حکومت ہے۔کائنات میں اللہ تعالی جیسی کوئی چیز نہیں
ہے،قرآن شریف میں ارشاد ہوتا ہے:لیس کمثلہ شیء"اس
جیسی کوئی چیز نہیں ہے"ولم یکن
لہ کفوا احد"اور اس کا
کوئی ہمسر نہیں"
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتے ہیں اللہ تعالی کی ذات ہمیشہ
سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اس وقت بھی وہ تھا جب کوئی شے موجود نہیں تھی،ہر شے کو اس
نے خلق کیا ہے وہ ہر طرح کی دردوقید سے بالا تر ہے۔وہ ہر جگہ ہے مگر انسان کے عقل
وفہم سے اس کی موجودگی اور ہمہ گیری بالا تر ہے۔جگر کہتے ہیں
تو دل میں تو آتا ہے،سمجھ میں نہیں آتا
میں جان گیا ہوں تیری
پہچان یہی ہے
شعر نمبر2
ہے عارفوں کو حیرت اور منکروں کو سکتہ
ہر دل پہ چھا رہاہے،رعبِ جلال تیرا
مفہوم:اے
اللہ تعالی تیرے رعب جلال نے عارفوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور منکروں پر سکتہ
تاری کردیا ہے۔
تشریح:اس
شعر میں شاعر نے دو قسم کے لوگوں کے بارے میں بات کی ہے ایک وہ جو اللہ تعالی کی
ذات کو جانتے ہیں اس کی معرفت حاصل کرتے ہیں ۔دوسرے وہ جو اللہ تعالی کا انکار کرنے
والے ہیں ۔دونوں قسم کے لوگوںپر اللہ تعالی کا رعب اور ہیبت تاری ہے۔اللہ تعالی
قرآن میں فرماتے ہیں"قل انی
اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم"کہہ دو بے شک اگر میں نے نافرمانی کی تو اپنے رب کے بڑے دن کے عذاب سے
ڈرتا ہوں۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں "ولمن خاف مقام ربہ جنتن"اور جوشخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس
کے لیے دو باغات ہیں۔بقول شاعر
ہے غلط گر گماں میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہاں میں کچھ ہے
اللہ تعالی کا ارشاد ہے"ان بطش ربک لشدید"بے شک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔شاعر کا خیال ہے کہ
اگر ذات خداوندی اپنے قہر کو نازل کرنے پر آجائے تو پھر کسی میں یہ ہمت نہیں کہ
خدا کے قہر کا سامنا کرسکے۔
تشریح طلب شعر میں شاعر یہ بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ
کائنات کی ہر شے اللہ تعالی کی عظمت وجلال اور بزرگی کا اعلان کررہی ہے چاہے وہ اس
کائنات کے نیک لوگوں کے دل ہوں یا برے اور اس کا انکار کرنے والوں کے دل ہوں
کائنات میں کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اپنے خالق ومعبود کی عظمت کا اظہار نہ کررہی
ہو ہر جگہ اللہ تعالی کی بے شمار نشانیاں بکھری ہوئی ہیں۔بقول شاعر
تو ہے چاند میں درخشاں،تو نجوم میں ہے تاباں
تیرا نور ہر طرف ہے تیرا جلوہ چار سوہے
شعر نمبر 3:
گو حکم تیرے لاکھوں ،یاں ٹالتے رہے ہیں
لیکن ٹلا نہ ہر گز ،دل سے خیال تیرا
مفہوم:لاکھوں
لوگوں نے اللہ تعالی کے حکم کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے دل سے اللہ تعالی کے
خیال کو نا ٹال سکے۔
تشریح:انسان
کو زندگی میں مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا انسان نعمتوں اور آسائشوں سے
مالامال ہوتا ہے اور خوشی محسوس کرتا ہے اور اپنے رب کی تعریف بیان کرتا ہے کہ
مجھے میرے رب نے نعمتوں سے نوازا ہے۔یا اس کے کے برعکس انسان تنگی رزق یا کسی تکلیف
ومصیبت کا سامنا کرتا ہے،جس کو وہ اپنا توہین سمجھتا ہے اور اللہ کی نافرمانی پراتر
آتاہے۔مگر شاعر اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتا ہے کہ ہم نے تیرے کئی حکموں کو
ٹالنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالی نے اس کے احساس ندامت کو بیدار کرکے اسے گناہوں
سے توبہ کرنے کا موقع عطا کیا ہے۔
مقام شکر ہے غافل،مصیبت دنیا
اسی بہانے سے اللہ یاد آتا ہے
انسانی فطرت ہے کہ جب انسان خوشی میں ہو تو اسے اللہ تعالی
کی یاد نہیں آتی اس کے پاس ہر نعمت موجود ہو تو وہ خدا کو بھول جاتا ہے۔انسان
سمجھتا ہے کہ شاید اس سے بڑھ کر کائنات میں کوئی طاقت موجود نہیں ہے ،لیکن جلد ہی
انسان کا یہ بھرم ٹوٹ جاتا ہے۔اسے احساس ہوتا ہے کہ میری زندگی کے بے شمار معاملات
ایسے بھی ہیں جن میں وہ بے بس ہے کہ وہ جتنی بھی کوشش کرے اللہ تعالی کے خیال کو
اپنے دل سے نہیں نکال سکتا۔حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا قول ہے"میں نے ارادوں
کے ٹوٹنے سے اللہ کو پہچانا ہے"۔اس کے بر عکس غم یا مصیبت کا سامنا کرنا پڑے
تو وہ اللہ تعالی کو یاد کرنے لگتا ہے اور وہ اپنا غم اور دکھ لیے اللہ تعالی کے
دربار میں سوالی بن جاتا ہے۔ارشاد ربانی ہے۔"جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو
وہ ہمیں پکارتا ہے"۔
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
شعر نمبر4:
پھندے سے تیرے کیوں کر،جائے نکل کے کوئی
پھیلا ہوا ہے ہر سو،عالم میں جال تیرا
مفہوم:اللہ
تعالی نے اپنے جال ہر طرف پھیلا رکھے ہیں اس لیے اس کے پھندوں سے کوئی نہیں نکل
سکتا
تشریح:اس
شعر میں شاعر نے اللہ تعالی کی صفت قدرت کو بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات ہر
چیز پر قادر ہے اس کے قبضہ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔قرآن مجید میں ارشاد
ہے۔"و اذا قضٰی امرا فانما
یقول لہ کن فیکون"اور جب اللہ تعالی کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے
تو اس کے لیے کہتے ہیں ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔بقول شاعر
تو ہی نظر آتا ہے ہر شے پہ محیط ان کو
جو رنج و مصیبت میں کرتے ہیں گلا تیرا
تشریح طلب شعر میں شاعر بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کی ذات
کے علاوہ کوئی مددگار نہیں ہے،اللہ تعالی کی ذات ہر چیز پر قادر ہے اس کے جلوے ہر
شے پر محیط ہیں قرآن مجید میں ارشاد ہے:"ان اللہ علی کل شیء قدیر"اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔
ثم الی ربھم مرجعھم فینبھم بما کانوا یعملون"پھر وہ لوٹیں گے اپنے رب کی طرف پس ہم ان کو انکے
کاموں کی خبر دیں گے۔شاعر نے اس شعر میں اللہ تعالی کی صفت قہار کو بیان کیا ہے جس
طرح وہ اپنی شفقت ومہربانیوں میں بے مثل ہے اسی طرح اس کا قہر بھی بے مثال ہے،بے
شمار مثالیں ہمارے سامنے اللہ تعالی کے جالوں کی موجود ہیں۔فرعون جو اپنے آپ کو
خدا کہلواتا تھا دریائے نیل کی موجوں کی لپیٹ میں اس طرح آیا کہ ہمیشہ کے لیے عبرت
کا نشان بن گیا،نمرود نے خدائی کادعوی کیا تو اللہ تعالی نے مچھر جیسی حقیر مخلوق
کو اس پر مسلط کردیا اور وہ نیست ونابود ہو گیا،شداد کو اپنی بنائی جنت دیکھنے کی
مہلت نہ دی،ابراہہ جو ہاتھیوں کا لشکر لے کر آیا ابابیلوں کے ذریعے چھوٹی چھوٹی
کنکریاں ان پر برسا کر انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کردیا،قوم نوح کو پانی کے
ذریعے ڈبو دیا،اس نے اصحابِ سبت کو خنزیر اور بندر بنا دیا غرض اللہ تعالی کا عذاب
بہت سخت ہے۔اللہ تعالی فرماتے ہیں:"ان بطش ربک لشدید"بے شک رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔بقول شاعر
ہر ایک لمحے کے اندر قیام تیرا ہے
زمانہ ہم جسے کہتے ہیں نام تیرا ہے
بقول شاعر
اول بھی وہی،آخر بھی وہی
اوجھل بھی وہی،ظاہر بھی وہی
شعر نمبر5
ان کی نظر میں شوکت،جچتی نہیں کسی کی
آنکھوں میں بس رہا ہے،جن کے جلال تیرا
مفہوم:جن
کی آنکھوں میں تیرا جلال بس جائے ان کی نظر میں دنیاوی شان وشوکت نہیں جچتی۔
تشریح:انسان
عبادت الہی اور اطاعت الہی کے ذریعے معرفت الہی یعنی اپنی زندگی کا حقیقی مقصد
حاصل کر لیتا ہے۔تو اللہ تعالی اسے وہ نور عطا فرمادیتا ہے جس کے جلوے ہر جگہ نظر
آتے ہیں وہ دنیا کی ہر شے میں دیکھتا ہے۔حضور ﷺ کا بیان ہے۔"من عرف نفسہ من عرف ربہ"جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اللہ کی معرفت حاصل
کر لی،یعنی خود شناسی ہی سے خدا شناسی حاصل ہوتی ہے۔جو شخص دنیا اور مال ودولت کی
حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتا ہے اس کی نظر میں اس دنیا کی کوئی وقعت نہیں رہتی
کیونکہ وہ اپنی نظروں میں اللہ تعالی کی اطاعت اور فرمابرداری کو اپنا لیتا ہے اس
کی محبت کا نشہ اور سرور اسے دنیا اور اس کی لذتوں اور اس کی شان وشوکت سے بے نیاز
کر دیتا ہے۔بقول شاعر
جچتا نہیں نظروں میں یاں خلعتِ سلطانی
کملی میں مگن اپنی رہتا ہے گدا تیرا
حدیث شریف کے الفاظ ہیں:"موتوا قبل ان تموتوا"مرنے سے پہلے مر جاؤ یعنی دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کو
دل میں نا بساؤ
مال ودولت،جاہ ومنصب،زروسیم اور دنیا کی آسائشوں کو مقصد
حیات نہ بنا لو زندگی گزاری جائے لیکن آخرت کی زندگی کو اس عارضی زندگی پر ترجیح
دی جائے۔
تشریح طلب شعر میں شاعر نے ایک مردِ مومن کی زندگی کو بیان
کیا ہے کہ وہ درویشانہ شان لیے ہوتی ہے وہ پر شکوہ بادشاہوں اور ان کے محلات کو
خاطر میں نہیں لاتا وہ دنیا کی شان وشوکت کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے،دنیا کی
دولت اور زیب وزینت اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔چونکہ کائنات کی ہر چیز اس کی
محتاج ہے اس کی مرضی ،فیصلے اور حکم کی تابع ہے اس لیے کائنات میں اس کے سوا کوئی
بھی بادشاہت یا بندگی کے لائق نہیں ہے ۔ارشاد ربانی ہے:"کہہ دو کہ اللہ ہی
بادشاہت کا مالک ہے وہ جیسے چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت
چھین لیتا ہے۔
اہل زر کو دیکھتا ہے اور ہنس دیتا ہے یہ
کونسی دولت ہے یارب تیرے دیوانے کے پاس
ایک مرد مومن کے پاس محبت الہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا وہ اس
کے سینے کا نور اور خزینہ ہوتی ہے۔ایسے لوگ لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو یاد
رکھتے ہیں اور جب دنیا سے جاتے ہیں تو ان کے لیے اللہ تعالی فرماتے ہیں ؛"ان
پر نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
شعر نمبر6:
دل ہو کہ جان،تجھ سے،کیوں کر عزیز رکھیے
دل ہے سو چیز تیری،جاں ہے سو مال تیرا
مفہوم:اے
اللہ تعالی میرا دل ،میر جان اور سب کچھ تیرا ہے۔مجھے کوئی بھی چیز عزیز نہیں ہے۔
تشریح:انسان
کے لیے اس کی زندگی سب سے اہم ہوا کرتی ہے پہلی سانس سے آخری سانس تک انسان اپنے
آپ کو باقی رکھنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے،اس کی ساری سرگرمیوں کامرکز اور محور
اپنے آپ کو موت سے بچانے کے لیے ہوتا ہے،لیکن اس کا نظریہ یا نصب العین اس کی
زندگی سے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے جان کی بازی
لگانے سے بھی نہیں ڈرتا۔اور وہ لوگ جو اس بات پر یقین رکھتے ہوں کہ ہم اس کی طرف
سے آئے ہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے،تو وہ اپنا نصب العین یہ بنا لیتے ہیں کہ
اس کی رضا کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔کیونکہ وہ زندگی کو
اپنی زندگی نہیں بلکہ خدا کی امانت سمجھتے ہیں ۔ارشادِ ربانی ہے:"ہم نے اہل
ایمان سے جنت کے بدلے ان کی جان،مال اور اولاد کو خرید لیا ہے"
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ زندگی ناپائیدار ہے ہر
ذی روح کو ایک دن اس دارِ فانی سے سفرِ آخرت پر نکلنا ہے۔تخلیق آدم سے حیات وموت
کا سلسلہ جاری ہے کیسے کیسے لوگ پیدا ہوئے جو آکر منوں مٹی تلے چھپ گئے۔اس لیے
مولانا الطاف حسین حالی بھی اپنے دل وجان کو اپنے لیے عزیز نہیں رکھتا ،شاعر کو پتہ
ہے کہ میرا سب کچھ رب کی ایک امانت ہے۔بقول شاعر:
یہ اقامت ہمیں پیغامِ سفر دیتی ہے
زندگی موت کے آنے کی خبر دیتی ہے
شاعر کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب(اللہ
تعالی) کے لیے اپنی سب سے قیمتی چیز اپنی جان (زندگی) کواس کے لیے قربان کر دے
حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ "میراجی چاہتا ہے کہ میں اللہ کے راستے میں شہید کیا
جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں ،پھر شہید کیا جاؤں
اورپھر زندہ کیا جاؤں،پھر شہید کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں "
انسان کے پاس زندگی اللہ کا دیا ہوا عطیہ ہے اور اللہ تعالی کی ذات ہی اس لائق ہے
کہ یہ زندگی اسی کی راہ میں قربان کر دی جائے ۔غالب کا کہنا ہے
جان دی،دی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اسی بات کو حسرت اس طرح بیان کرتے ہیں
تم پر مٹے تو زندہ جاوید ہو گئے
ہم کو بقا نصیب ہوئی ہے فنا کے بعد
شعر نمبر7:
مفہوم:اے
اللہ تعالی تجھے دیکھے بغیر تجھ سے واقف ہیں اور صوفی منش لوگ جب تیرے بارے میں
سنتے ہیں تو وہ وجد میں آکر اپنے سر دھنتے ہیں۔
تشریح:شاعر
نے اس شعر میں اس فلسفے کو بیان کیا ہے کہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اوہ اپنے
محبوب کو اپنے سامنے دیکھے مگر رب کی ذات ایسی ہے کی اس کو کوئی شخص دیکھ نہیں
سکتا۔"لاتدرکہ الابصار" آنکھیں اس کو نہیں پا سکتیں۔
میدان حشر میں اللہ تعالی جلوہ افروز ہوں گے اور زمین اللہ
کے نور سے روشن ہو جائے گی بہت سے چہرے اس دن اللہ تعالی کودیکھ کر تروتازہ ہوں
گے۔"وجوہ یومئذ ناضرۃ الی
ربھا ناظرۃ" کئی چہرے
اس دن اپنے رب کو دیکھتے ہوئے کھل اٹھیں گے۔اقبال کہتے ہیں:
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
شاعر کہتا ہے کہ انسان اللہ تعالی کو جاننے کی کوشش میں
سرگرداں رہتا ہے لیکن وہ اس ذاتِ بے مثال کو جان اور دیکھ نہیں سکتا۔کائنات کی
انواع واقسام اشیاء پر تدبر کرنے سے کسی قدر معرفت الہی حاصل ہوتی ہے لیکن اس سے
مکمل طور پر رنگِ آشنائی حاصل کرنا ناممکن ہے،کیونکہ اللہ تعالی ہمارے فہم و ادراک
سے بالاتر ہے۔
تشریح طلب شعر میں شاعر نے ترکیب "اہلِ حال" سے
مراد صوفی لوگ مراد لیے ہیں جو ایک مقام پر جمع ہوں تو وہ اللہ کی ذات کی نعمتوں
کو یاد کر کے وجد میں آکر اپنے سر کو دھنتے ہیں،اور اللہ تعالی سے اپنی محبت کا
اظہار کرتے ہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔"الحمد للہ خلق السموت والارض وجعل الظلمات والنور"تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے آسمانوں اور زمین
کو پیدا کیا اور اندھیروں اور نور کو بنایا۔بقول شاعر:
اس جانِ دو عالم کا جلوہ
پردے میں بھی ہے،بے پردہ بھی ہے
مرکزی خیال
اللہ تعالی کا ازل سے کمال ہے اور ابد تک اس کا جلال رہے گا
،اللہ تعالی کے رعب ِجلال سے عارفوں کو حیرت ہے اور منکروں پر سکتہ طاری ہے۔لاکھوں
لوگوں نے رب کے حکم کو ٹالنے کی کوشش کی مگر اس کا خیال ہر دل میں موجود ہے۔اللہ
تعالی نے اپنے پھندے اور جال ہر طرف پھیلا رکھے ہیں ان سے کوئی نہیں بچ سکتا جن
لوگوں کی آنکھوں میں اللہ تعالی کا جلال ہے ان کی نظروں میں دیناوی شان وشوکت نہیں
جچتی،انسان کی جان اورمال سب کچھ اللہ تعالی کا عطا کردہ ہے۔اللہ تعالی کو پہچاننے
میں اور اس کی نعمتوں کو یاد کر کے صوفی لوگ سر دھنتے رہتے ہیں۔
0 Comments: